Tip:
Highlight text to annotate it
X
الفاظ’’خدا کا بیٹا‘‘ اِن کا حقیقی مطلب کیا ہے؟
الفاظ’’خدا کا بیٹا‘‘ اِن کا حقیقی مطلب کیا ہے؟
اِس سے ہم کیا سمجھتے ہیں؟
کیا خدا نے باپ بن کر کسی بچے کی پرورش کی ؟
کیا خدا نے باپ بن کر کسی بچے کی پرورش کی ؟
استغفراللہ!
اللہ بہت عظیم ہے
وہ اعلیٰ و ارفع
اللہ تعالیٰ ہے۔
وہ ایسی سب باتوں سے بہت بلند ہے
اُس نے اپنے آپ کو کسی ملکہ کا شوہر بنا کر نہیں رکھا۔ اُس کی
کوئی زوج
کوئی بیوی نہیں
بلکہ ایسا سوچنا بھی کسی کفر
سے کم نہیں ۔
اور قرآن کا بھی کچھ ایسا ہی بیان ہے
اور ہم اُس سے پوری طرح اتفاق کرتے ہیں ۔
ہم میں سے وہ لوگ جو حضرت عیسی المسیح ؑ کے پیروکار ہیں
اُنہیں اِس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں
اِس بیان کے ساتھ کوئی جھگڑا نہیں ۔
اِس بیان کے ساتھ کوئی جھگڑا نہیں ۔
مختلفتہ
ہم اِ س کی مخالفت نہیں کرتے
بلکہ بات اِس کے برعکس ہے۔
پچھلے صحائف کی شہادت واقعی یہ بات عیاں کرتی ہے
کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی بچہ نہیں جنا جیسے
ایک عورت سے بچہ پیدا ہوتا ہے ،
صحائف میں ایسی تعلیم نہیں پائی جاتی ۔
صحائف میں ایسی تعلیم نہیں پائی جاتی ۔
بیٹے کاتصور ہمیں سب سے پہلے حضرت داؤد نبی
کے دوسرے زبور میں ملتا ہے۔
اِس زبور میں ہمیں ایک خاص عہد ے کے بارے میں بتایا گیا ہے جو اُس شخص کو دیا گیا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی نمائندگی کے لئے چُنا
اِس زبور میں ہمیں ایک خاص عہد ے کے بارے میں بتایا گیا ہے جو اُس شخص کو دیا گیا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی نمائندگی کے لئے چُنا
کہ وہ اسرائیل پر بادشاہی کرے
کہ وہ اسرائیل پر بادشاہی کرے
اور ایک لحاظ سے اللہ تعالیٰ اُسے اپنے خلیفہ مقرر کرتا ہے۔
اور ایک لحاظ سے اللہ تعالیٰ اُسے اپنے خلیفہ مقرر کرتا ہے۔
اور خاص طور پرساتویں آیت میں اُس شخص کے بارے میں بات کرتے ہوئے
اور خاص طور پرساتویں آیت میں اُس شخص کے بارے میں بات کرتے ہوئے
وہ کہتا ہے کہ
’’تُو میرا بیٹا ہے آج توُ مجھ سے پیدا ہوا‘‘
اُس وقت کی تہذیب و ثقافت میں
جب کوئی عظیم الشان بادشاہ
اپنے تابع فرمان بادشاہوں
کے بارے میں بات کرتا تو
اپنے نمائندوں میں سے کسی ایک سے
جو اُس کی بادشاہت کے کسی حصے پر حکمرانی کر رہے ہوتے
وہ اُس فرد کو صرف اپنا خادم ہی نہیں کہتا تھا
وہ اُس فرد کو صرف اپنا خادم ہی نہیں کہتا تھا
بلکہ وہ اُس کے لئے ’’خداوند‘‘ کا لفظ استعمال کرتاہو گا
لیکن
ا کثر اوقات
اُس بڑے بادشاہ کے دوسرے بادشاہ کے ساتھ
تعلق کو ’’باپ ‘‘اور بیٹے اور
بیٹے اور باپ کے تعلق میں بیان کیا گیا ہے۔
بیٹے اور باپ کے تعلق میں بیان کیا گیا ہے۔
اِس زبور میں ہمیں کیا نظر آتا ہے
کیا تین خیا لات کو ایک ہی میں سمو نہیں دیا گیا :
وہ مسیح ہے
وہ مسح کیا ہواہے
مَیں نے تمھیں(حضرت عیسیٰ المسیح ؑ ) بادشاہ ہونے کے لئے مسح کیا ہے
آپ بادشاہ ہو
آپ میرے نمائندے ہو
آپ خلیفہ ہو
اور
مزید یہ کہ
آپ کو’’ بیٹا ‘‘کہا گیا ہے۔
آپ کا ایک خاص تعلق ہے۔
مسیحا
بادشاہ
بیٹا
اِن تینوں کو
ایک میں سمو دیا گیا ۔
قرآن مجید میں مثال کے طور پر
سورۃ ا لئمومنون کی آیت نمبر ۹۱ میں
سورۃ ا لئمومنون کی آیت نمبر ۹۱ میں
ہمیں یہ صاف اور واضح طور پر
بتا دیا گیا ہے کہ
بتا دیا گیا ہے کہ
اللہ تعالیٰ نے کسی بیٹے کو جنم نہیں دیا
اللہ تعالیٰ نے کسی بیٹے کو جنم نہیں دیا
پھرایک اور آیت مزید وضاحت کرتی ہے
سورۃ الانعام آیت ۱۰۱ میں لکھا ہے کہ
’’اُس کے اولاد کہاں سے ہو جب کہ اُس کی بیوی ہی نہیں ۔‘‘
’’اُس کے اولاد کہاں سے ہو جب کہ اُس کی بیوی ہی نہیں ۔‘‘
عربی میں بیٹے کے لئے دو الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔
ایک لفظ ہے ’’اِبن‘‘اور دوسرا لفظ ہے ’’ وَلَد‘‘
ابن ایک وسیع اصطلاح ہے جو اکثر مجازی طور پر اِستعمال ہوسکتی ہے
جس کا مطلب انسانی جسم سے پیدا ئش نہیں۔
قرآن مجید خود اِس مجازی اصطلاح کو
سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ۲۱۵ میں استعمال کرتا ہے
جہاں مسافروں کو
’’اِبن السبیل ‘‘ یا
’’راہ کے بیٹے ‘‘کہا گیا ہے ۔
سواِبن کی اِصطلاح بائبل مُقّدس میں یسوع مسیح کے لئے استعمال ہونے والا بیٹے کے تصور (ہیوس) کا درست عربی ترجمہ ہے۔
جب کہ ’’ولد ‘‘جسمانی تعلق سے بیٹے کی پیدائش کو ظاہر کرتا ہے۔
جب کہ ’’ولد ‘‘جسمانی تعلق سے بیٹے کی پیدائش کو ظاہر کرتا ہے۔
جیسے کہ انگریزی اصطلاح میں (offspring)یعنی ’’اولاد ‘‘ہے۔
’’ولد‘‘
تعلق کی ایک اصطلاح ہے
جس سے قرآن مجید منع فرماتا ہے
کیونکہ ’’ ابن‘‘ کے برعکس ’’ولد ‘‘کا مطلب ہے’’ جسمانی طور پر اولاد کی پیدائش ہونا۔‘‘
اور جب حقیقت میں ہم آیات کا جائزہ لیتے ہیں تو
یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ’’بیٹے ‘‘ کا نظریہ جس سے قرآن مجید انکار کرتا ہے
یہ وہ نہیں ہے جس کی تعلیم انجیل شریف دیتی ہے
بلکہ یہ گستاخانہ خیال ہے
کہ اللہ تعالیٰ نے ایک بیوی لی اور جسمانی بیٹا پیداکیا ۔
استغفراللہ !
اِس طرح قرآن مجید اور انجیل شریف میں
اِس نظریے پر کوئی اختلاف نہیں ہے ۔
یہ ایک جیسا ہی ہے۔
کیونکہ یہاں بات جسمانیت کی نہیں ہورہی
کیونکہ وہ ممنوع ہے
بلکہ ایک خاص تعلق کی با ت ہو رہی ہے۔